نظر میں آتا ہوں پھر دل کے پار ہوتا ہوں
میں ایک عمر کے بعد آشکار ہوتا ہوں
زیادہ ہوتے نہیں میرے ماننے والے
میں سچ کی طرح یہاں اختیار ہوتا ہوں
مِرے لیے تِرے کون و مکان کیا شے ہیں
میں ایک جست میں ان سب کے پار ہوتا ہوں
مجھے بھی اپنی رفاقت میں رکھ جمالِ یار
میں عشق ہوں تِرا خدمت گزار ہوتا ہوں
مجھے بھی آئینے جیسا کمال حاصل ہے
میں ٹوٹتا ہوں تو پھر بے شمار ہوتا ہوں
یہاں ہزار مِرا بوجھ ڈھونے والے مگر
میں صرف اپنے ہی سر پر سوار ہوتا ہوں
مِری دھمک سے زمان و مکاں لرزتے ہیں
میں ایک رقص ہوں دیوانہ وار ہوتا ہوں
مِرے حضور ہی ہوتی ہے حاضری میری
میں اپنے سامنے منت گزار ہوتا ہوں
مِرے عدو مجھے مسمار کر نہیں سکتے
میں اپنے ہاتھ سے اپنا شکار ہوتا ہوں
مِرے چہار سو لاشیں پڑیں ہیں اور شہزاد
کمال یہ ہے میں زندہ شمار ہوتا ہوں
قمر رضا شہزاد
No comments:
Post a Comment