Tuesday 26 April 2022

وہ ذمہ داری کتنی خوشی سے نبھائی تھی

 وہ ذمہ داری کتنی خوشی سے نبھائی تھی 

اس شخص کو سرائیکی میں نے سکھائی تھی 

میں نے جہانِ پیاس کو سیراب کر دیا

دریا کی ایک لہر مِرے ہاتھ آئی تھی 

جنگِ عرب میں چھوڑ گئے جب حمایتی 

کوفہ کے اک جواں نے مِری جاں بچائی تھی 

عورت سے بحث کرنا سمجھتا تھا اپنی ہتک  

اور نظریاتی لڑکی بھی دل میں بسائی تھی 

ایمان کا حساب بھی رکھنا پڑا ہمیں 

ذاتی بھلائی میں ہی خدا کی بھلائی تھی 

وادی میں ہر سو اگنے لگے پانیوں کے پھول 

چشمے پہ کوئی حسن بھری آ نہائی تھی 

میں نے چنے ہیں اپنی ہی مرضی کے چند پل 

ورنہ تو میرے حصے میں پوری خدائی تھی 

شاید کہ ایک رات کے بعد اور رات ہو

سپنے میں اک جدائی کے بعد اور جدائی تھی 


وقار خان 

No comments:

Post a Comment