وہ ذمہ داری کتنی خوشی سے نبھائی تھی
اس شخص کو سرائیکی میں نے سکھائی تھی
میں نے جہانِ پیاس کو سیراب کر دیا
دریا کی ایک لہر مِرے ہاتھ آئی تھی
جنگِ عرب میں چھوڑ گئے جب حمایتی
کوفہ کے اک جواں نے مِری جاں بچائی تھی
عورت سے بحث کرنا سمجھتا تھا اپنی ہتک
اور نظریاتی لڑکی بھی دل میں بسائی تھی
ایمان کا حساب بھی رکھنا پڑا ہمیں
ذاتی بھلائی میں ہی خدا کی بھلائی تھی
وادی میں ہر سو اگنے لگے پانیوں کے پھول
چشمے پہ کوئی حسن بھری آ نہائی تھی
میں نے چنے ہیں اپنی ہی مرضی کے چند پل
ورنہ تو میرے حصے میں پوری خدائی تھی
شاید کہ ایک رات کے بعد اور رات ہو
سپنے میں اک جدائی کے بعد اور جدائی تھی
وقار خان
No comments:
Post a Comment