Wednesday, 27 April 2022

جہاں در تھا وہاں دیوار کیوں ہے

 جہاں در تھا وہاں دیوار کیوں ہے

الگ نقشے سے یہ معمار کیوں ہے

خدا آزاد تھا حاکم کی حد سے

خدا کے شہر میں سرکار کیوں ہے

بہت آسان ہے مل جل کے بہنا

ندی اور دھار میں پیکار کیوں ہے

ہزاروں رنگ کے پھولوں سے کھنچ کر

بنا ہے شہد تو بے کار کیوں ہے

کسی بھی سمت سے آ کر پرندے

سجائیں جھیل تو آزار کیوں ہے

تری محفل میں سب بیٹھے ہیں آ کر

ہمارا بیٹھنا دشوار کیوں ہے

بنا کر رکھ تو گھر اچھا رہے گا

تو مالک بن کرایہ دار کیوں ہے

تمہارے ساتھ ہم آگے بڑھے تھے

ہماری پیٹھ پر تلوار کیوں ہے

خدا سے کیا رقابت ہے صنم کی

رہ مسجد نظر میں خار کیوں ہے

عبارت میں نہ کر تحریف بے جا

ہمارے نام سے بیزار کیوں ہے

پرندے کو جو موقع دو دکھا دے

بندھے پر کا سفر لاچار کیوں ہے

پڑوسی ہو تو پھل یا پھول لاتے

تمہارے ہاتھ میں ہتھیار کیوں ہے

زمیں پھیلی ہوئی ہے آسماں تک

بس اک ٹکڑے پہ یوں تکرار کیوں ہے


انیس انصاری

No comments:

Post a Comment