Wednesday 27 April 2022

تھکا گیا ہے مسلسل سفر اداسی کا

 تھکا گیا ہے مسلسل سفر اداسی کا

اور اب بھی ہے میرے شانے پہ سر اداسی کا

وہ کون کیمیا گر تھا کہ جو بکھیر گیا

تیرے گلاب سے چہرے پہ زر اداسی کا

میرے وجود کے خلوت کدے میں کوئی نہ تھا

جو رکھ گیا ہے دِیا طاق پر اداسی کا

میں تجھ سے کیسے کہوں یار مہربان میرے

کہ تو علاج نہیں میری ہر اداسی کا

یہ اب جو آگ کا دریا مِرے وجود میں ہے

یہی تو پہلے پہل تھا شرر اداسی کا

نہ جانے آج کہاں کھو گیا ستارۂ شام

وہ میرا دوست، میرا ہمسفر اداسی کا

فراز! دیدۂ پُر آب میں نہ ڈھونڈ اسے

کہ دل کی تہہ میں کہیں ہے گہر اداسی کا


احمد فراز

No comments:

Post a Comment