تھکا گیا ہے مسلسل سفر اداسی کا
اور اب بھی ہے میرے شانے پہ سر اداسی کا
وہ کون کیمیا گر تھا کہ جو بکھیر گیا
تیرے گلاب سے چہرے پہ زر اداسی کا
میرے وجود کے خلوت کدے میں کوئی نہ تھا
جو رکھ گیا ہے دِیا طاق پر اداسی کا
میں تجھ سے کیسے کہوں یار مہربان میرے
کہ تو علاج نہیں میری ہر اداسی کا
یہ اب جو آگ کا دریا مِرے وجود میں ہے
یہی تو پہلے پہل تھا شرر اداسی کا
نہ جانے آج کہاں کھو گیا ستارۂ شام
وہ میرا دوست، میرا ہمسفر اداسی کا
فراز! دیدۂ پُر آب میں نہ ڈھونڈ اسے
کہ دل کی تہہ میں کہیں ہے گہر اداسی کا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment