Wednesday, 27 April 2022

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا

 کانٹا سا جو چُبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا

گُھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا

پلکوں کے بیچ سارے اُجالے سمٹ گئے

سایہ نہ ساتھ دے یہ وہی مرحلہ ہے کیا

میں آندھیوں کے پاس تلاشِ صبا میں ہوں

تم مجھ سے پوچھتے ہو؛ مِرا حوصلہ ہے کیا

ساگر ہوں اور موج کے ہر دائرے میں ہوں

ساحل پہ کوئی نقشِ قدم کھو گیا ہے کیا

سو سو طرح لکھا تو سہی حرفِ آرزو

اک حرفِ آرزو ہی مِری انتہا ہے کیا

اک خواب دل پذیر گھنی چھاؤں کی طرح

یہ بھی نہیں تو پھر مِری زنجیرِ پا ہے کیا

کیا پھر کسی نے قرضِ مروت ادا کیا

کیوں آنکھ بے سوال ہے دل پھر دُکھا ہے کیا


ادا جعفری

No comments:

Post a Comment