Wednesday, 27 April 2022

اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے

 اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے

وہ دل جو باز نہ آئے فریب کھانے سے

وہ شخص ایک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا

جسے تراش رہا تھا میں اک زمانے سے

رکی رکی سی نظر آ رہی ہے نبضِ حیات

یہ کون اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے

نہ جانے کتنے چراغوں کو مِل گئی شہرت

اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے

اداس چھوڑ گیا وہ ہر اک موسم کو

گلاب کِھلتے تھے کل جس کے مسکرانے سے


اقبال اشہر

اقبال اشعر

No comments:

Post a Comment