Wednesday, 27 April 2022

ہر رسم پر نظر کو جھکاتے ہوئے چلے

ہر رسم پر نظر کو جھکاتے ہوئے چلے

ہر اختیار اپنا مٹاتے ہوئے چلے

کچھ ان پہ اعتماد ہے کچھ اپنی ذات پر

زعم فریب یوں ہی نبھاتے ہوئے چلے

کتنی حکایتیں کہ زباں تک نہ آ سکیں

زنجیر حرف ان پہ سجاتے ہوئے چلے

ان کے مذاق دید سے پائی نہ پائی داد

پھر بھی حریم شوق بساتے ہوئے چلے

جو راہ جل گئی تھی حقیقت کی آنچ سے

خوابوں کے پھول اس پہ بچھاتے ہوئے چلے


طلعت اشارت

No comments:

Post a Comment