دل دھڑکتا ہے تو آتی ہیں صدائیں تیری
میری سانسوں میں مہکنے لگیں سانسیں تیری
چاند خود محوِ تماشا تھا فلک پر اس دم
جب ستاروں نے اتاریں تھیں بلائیں تیری
شعر تو روز ہی کہتے ہیں غزل کے، لیکن
آ کبھی بیٹھ کے تجھ سے کریں باتیں تیری
ذہن و دل تیرے تصور سے گھرے رہتے ہیں
مجھ کو باہوں میں لیے رہتی ہیں یادیں تیری
کیوں مِرا نام مِرے شعر لکھے ہیں ان میں
چغلیاں کرتی ہیں مجھ سے یہ کتابیں تیری
بے خبر اوٹ سے تو جھانک رہا ہو ہم کو
اور ہم چپکے سے تصویر بنا لیں تیری
نواز دیوبندی
No comments:
Post a Comment