چاک ہو پردۂ وحشت مجھے منظور نہیں
ورنہ، یہ ہاتھ گریبان سے کچھ دور نہیں
وصل سے یاس ہو ایسا دل مہجور نہیں
بُت اگر دور ہے مجھ سے تو خدا دور نہیں
چھین لیں دل کو اگر وہ تو یہ مجبوری ہے
میں کہے جاؤں گا محتاج ہوں مقدور نہیں
سجدے کرنے سے مٹا خط جبیں اے زاہد
ہم کہے دیتے ہیں قسمت میں تری حور نہیں
دل کو ہوتی ہے خبر آپ کہیں یا نہ کہیں
ہم کو معلوم ہے وہ بات جو مشہور نہیں
محتسب مانع حلت ہے گمان مے سے
سونگھنے کو بھی میسر مجھے انگور نہیں
لب تک آئی تھی شکایت کہ محبت نے کہا
دیکھ پچھتائے گا خاموش یہ دستور نہیں
رات دن نامہ و پیغام کہاں تک ہوں
صاف کہہ دیجیے ملنا ہمیں منظور نہیں
تم نے دی کو ہکن و قیس سے مجھ کو نسبت
کوئی دیوانہ نہیں میں کوئی مزدور نہیں
کیا کرے دا غ کوئی اُس کی محبت کا علاج
وہ کلیجا ہی نہیں جس میں یہ ناسور نہیں
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment