میں نفرت کے عوض ساری محبت بیچ آیا ہوں
جو پل بھر کو ملی تھوڑی مسرت بیچ آیا ہوں
مجھے حق ہی نہیں یارو! کوئی ارمان رکھنے کا
سرِ بازار میں ہر ایک حسرت، بیچ آیا ہوں
ضرورت کو ہی خواہش کر کے ساری عمر کاٹی تھی
مگر میں آج اپنی ہر ضرورت، بیچ آیا ہوں
خزائیں ہی خزائیں ہیں فقط، میرے مقدر میں
بہاروں سے جو رکھی تھی وہ رغبت بیچ آیا ہوں
کبھی اِک وقت تھا یارو! کہ میں بھی دل سے ہنستا تھا
مگر اب ہار کر اپنی وہ فطرت، بیچ آیا ہوں
مجھے معلوم تھا جاناں ملن ہر گز نہیں ہو گا
بہت ہی سینت کر رکھی وہ قربت بیچ آیا ہوں
اثر کچھ بھی نہیں ہوتا، بھلے کچھ بھی کہو مجھ کو
کبھی ماتھے پہ پڑتی تھی، وہ سلوٹ بیچ آیا ہوں
فقط اک خواب دیکھا تھا صنم، اوقات سے بڑھ کر
صلہ اس خواب کا آنکھوں کی صورت بیچ آیا ہوں
سکوں تو چھِن گیا کب کا، مجھے اب چین کیونکر ہو
کہ جس پہ نیند آتی تھی، وہ کروٹ بیچ آیا ہوں
سبھی کچھ بیچ کر پھر گھر کو کیسے لوٹ کر آتا
میں واپس لوٹ کر آنے کی عادت، بیچ آیا ہوں
سبھی کچھ بِک گیا بس اِک مری تنہائی باقی ہے
بہت انمول ہے یہ، اس کی قیمت بیچ آیا ہوں
حسابِ وقت سے میرا تعلق، اب نہیں کوئی
میں رسمیں توڑ آیا ہوں، روایت بیچ آیا ہوں
ضرورت ہی نہیں مولا! دعا مقبول کرنے کی
میں مذہب چھوڑ آیا ہوں، عبادت بیچ آیا ہوں
علی بازار والوں نے عجب سودا کیا مجھ سے
وہ نفرت لے کے آئے، میں محبت بیچ آیا ہوں
علی سرمد
No comments:
Post a Comment