Sunday, 1 May 2022

میں نفرت کے عوض ساری محبت بیچ آیا ہوں

 میں نفرت کے عوض ساری محبت بیچ آیا ہوں

‎جو پل بھر کو ملی تھوڑی مسرت بیچ آیا ہوں

‎مجھے حق ہی نہیں یارو! کوئی ارمان رکھنے کا

‎سرِ بازار میں ہر ایک حسرت، بیچ آیا ہوں

‎ضرورت کو ہی خواہش کر کے ساری عمر کاٹی تھی

‎مگر میں آج اپنی ہر ضرورت، بیچ آیا ہوں

‎خزائیں ہی خزائیں ہیں فقط، میرے مقدر میں

‎بہاروں سے جو رکھی تھی وہ رغبت بیچ آیا ہوں

‎کبھی اِک وقت تھا یارو! کہ میں بھی دل سے ہنستا تھا

‎مگر اب ہار کر اپنی وہ فطرت، بیچ آیا ہوں

‎مجھے معلوم تھا جاناں ملن ہر گز نہیں ہو گا

‎بہت ہی سینت کر رکھی وہ قربت بیچ آیا ہوں

‎اثر کچھ بھی نہیں ہوتا، بھلے کچھ بھی کہو مجھ کو

‎کبھی ماتھے پہ پڑتی تھی، وہ سلوٹ بیچ آیا ہوں

‎فقط اک خواب دیکھا تھا صنم، اوقات سے بڑھ کر

‎صلہ اس خواب کا آنکھوں کی صورت بیچ آیا ہوں

‎سکوں تو چھِن گیا کب کا، مجھے اب چین کیونکر ہو

‎کہ جس پہ نیند آتی تھی، وہ کروٹ بیچ آیا ہوں

‎سبھی کچھ بیچ کر پھر گھر کو کیسے لوٹ کر آتا

‎میں واپس لوٹ کر آنے کی عادت، بیچ آیا ہوں

‎سبھی کچھ بِک گیا بس اِک مری تنہائی باقی ہے

‎بہت انمول ہے یہ، اس کی قیمت بیچ آیا ہوں

‎حسابِ وقت سے میرا تعلق، اب نہیں کوئی

‎میں رسمیں توڑ آیا ہوں، روایت بیچ آیا ہوں

‎ضرورت ہی نہیں مولا! دعا مقبول کرنے کی

‎میں مذہب چھوڑ آیا ہوں، عبادت بیچ آیا ہوں

‎علی بازار والوں نے عجب سودا کیا مجھ سے

‎وہ نفرت لے کے آئے، میں محبت بیچ آیا ہوں


علی سرمد

No comments:

Post a Comment