نہ راستے میں ملا ہوں نہ گھر گیا ہوں میں
تمہیں پتہ ہے، بتاؤ، کدھر گیا ہوں میں؟
اسی کو میری محبت کا معجزہ سمجھو
کہ تم نے مر ہی کہا اور مر گیا ہوں میں
میں ایک وقت تھا مجھ کو پکار مت پگلی
کہ لوٹ سکتا نہیں، اب گزر گیا ہوں میں
بڑھے گا بوجھ تو میری طرف ہی دیکھو گے
میں جانتا تھا، سو پہلے اتر گیا ہوں میں
کہیں بھی اس کو دکھائی نہیں دیا دانش
جہاں بھی پھیری ہے اس نے نظر گیا ہوں میں
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment