بہت خموش ہیں آنکھیں لبِ نظر جاتے
کہ ان دِیوں سے بھی اک شام بات کر جاتے
ہماری سادہ مزاجی میں احتیاط نہ تھی
ذرا سا رنگ چھڑکنا تھا، ہم اُبھر جاتے
زوال ہی کا تماشہ تھے ڈوبتے تو سہی
نشیب ہی کا سماں تھے کہیں اُتر جاتے
تِرے خیال کے ساحل سے ہم اُٹھے ہی نہیں
یہاں پہ شام ہوئی ہی نہیں، کہ گھر جاتے
کوئی چراغ گِرا تھا بڑی بلندی سے
عجیب خوف سا آتا ہے بام پر جاتے
جہاں ملے تھے بچھڑنے سے ایک شب پہلے
اسی مقام پہ ہم دونوں کاش مر جاتے
کمیل شفیق رضوی
No comments:
Post a Comment