مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں
جانتا تھا کہ ستمگر ہے، مگر کیا کیجے
دل لگانے کے لیے اور کوئی تھا بھی نہیں
جیسا بے درد ہو وہ پھر بھی یہ جیسا محبوب
ایسا کوئی نہ ہوا، اور کوئی بھی نہیں
وہی ہو گا، جو ہوا ہے، جو ہوا کرتا ہے
میں نے اس پیار کا انجام تو سوچا بھی نہیں
ہائے کیا دل ہے کہ لینے کے لیے جاتا ہے
اس سے پیمان وفا جس پہ بھروسا بھی نہیں
بارہا گفتگو ہوتی رہی، لیکن مِرا نام
اس نے پوچھا بھی نہیں میں نے بتایا بھی نہیں
تحفہ زخموں کا مجھے بھیج دیا کرتا ہے
مجھ سے ناراض ہے لیکن مجھے بھولا بھی نہیں
دوستی اس سے نبھ جائے بہت مشکل ہے
میرا تو وعدہ ہے اس کا تو ارادہ بھی نہیں
میرے اشعار وہ سن سن کے مزے لیتا رہا
میں اسی سے ہوں مخاطب وہ یہ سمجھا بھی نہیں
میرے وہ دوست مجھے داد سخن کیا دیں گے
جن کے دل کا کوئی حصہ ذرا ٹوٹا بھی نہیں
مجھ کو بننا پڑا شاعر کہ میں ادنیٰ غم دل
ضبط بھی کر نہ سکا پھوٹ کے رویا بھی نہیں
شاعری جیسی ہو عاجز کی بھلی ہو کہ بری
آدمی اچھا ہے، لیکن بہت اچھا بھی نہیں
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment