گل خورشید کھلاؤں گا چلا جاؤں گا
صبح سے ہاتھ ملاؤں گا چلا جاؤں گا
اب تو چلنا ہے کسی اور ہی رفتار کے ساتھ
جسم بستر پہ گراؤں گا چلا جاؤں گا
آبلہ پائی ہے رسوائی ہے رات آئی ہے
دامن ایک اک سے چھڑاؤں گا چلا جاؤں گا
ہجر صدیوں کے تحیر کی گِرہ کھولے گا
اک زمانے کو رلاؤں گا چلا جاؤں گا
بس تجھے دیکھوں گا آتے ہوئے اپنی جانب
پھول قدموں میں بچھاؤں گا چلا جاؤں گا
عشق بھی حسن میں ضم ہوتا دکھاؤں گا تجھے
جب دیا رقص میں لاؤں گا چلا جاؤں گا
جس طرف بھول کے بھی دیکھا نہیں آج تلک
قدم اس سمت بڑھاؤں گا چلا جاؤں گا
اشرف جاوید
No comments:
Post a Comment