Monday, 2 May 2022

گل خورشید کھلاؤں گا چلا جاؤں گا

 گل خورشید کھلاؤں گا چلا جاؤں گا

صبح سے ہاتھ ملاؤں گا چلا جاؤں گا

اب تو چلنا ہے کسی اور ہی رفتار کے ساتھ

جسم بستر پہ گراؤں گا چلا جاؤں گا

آبلہ پائی ہے رسوائی ہے رات آئی ہے

دامن ایک اک سے چھڑاؤں گا چلا جاؤں گا

ہجر صدیوں کے تحیر کی گِرہ کھولے گا

اک زمانے کو رلاؤں گا چلا جاؤں گا

بس تجھے دیکھوں گا آتے ہوئے اپنی جانب

پھول قدموں میں بچھاؤں گا چلا جاؤں گا

عشق بھی حسن میں ضم ہوتا دکھاؤں گا تجھے

جب دیا رقص میں لاؤں گا چلا جاؤں گا

جس طرف بھول کے بھی دیکھا نہیں آج تلک

قدم اس سمت بڑھاؤں گا چلا جاؤں گا


اشرف جاوید

No comments:

Post a Comment