چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لیے
پڑے ہیں رستے میں تیرے مگر دعا کے لیے
مبادا شب کی سیاہی زمیں کو کھا جائے
نقاب رخ سے اٹھا دو ذرا خدا کے لیے
کوئی چراغ تو آندھی سے بچ کے نکلے گا
جلا دئیے ہیں بہت سے دیے ہوا کے لیے
یہاں تو روز نئی آفتوں سے پالا ہے
حسینؑ کتنے اب آئیں گے کربلا کے لیے
وہ جس نے طور پہ موسیٰ کو بے قرار کیا
تڑپ رہی ہے نظر پھر اسی ادا کے لیے
زمیں کا سینہ تو شعلوں کی مثل جلتا رہا
ترس کے چل دئیے اعجاز اک گھٹا کے لیے
اعجاز احمد
No comments:
Post a Comment