Monday 2 May 2022

چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لیے

 چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لیے

پڑے ہیں رستے میں تیرے مگر دعا کے لیے

مبادا شب کی سیاہی زمیں کو کھا جائے

نقاب رخ سے اٹھا دو ذرا خدا کے لیے

کوئی چراغ تو آندھی سے بچ کے نکلے گا

جلا دئیے ہیں بہت سے دیے ہوا کے لیے

یہاں تو روز نئی آفتوں سے پالا ہے

حسینؑ کتنے اب آئیں گے کربلا کے لیے

وہ جس نے طور پہ موسیٰ کو بے قرار کیا

تڑپ رہی ہے نظر پھر اسی ادا کے لیے

زمیں کا سینہ تو شعلوں کی مثل جلتا رہا

ترس کے چل دئیے اعجاز اک گھٹا کے لیے 


اعجاز احمد

No comments:

Post a Comment