بے سبب رفاقت کا دکھ اٹھا کے رکھا ہے
ہم نے تیرے وعدے سے دل لگا کے رکھا ہے
موتیے کی کچھ کلیاں، اور گلاب سہ رنگی
اپنے گھر کے آنگن میں سب سجا کے رکھا ہے
تِرے لوٹ آنے کی گر نہیں کوئی صورت
کس لیے تعلق کا بوجھ اٹھا کے رکھا ہے
رات کے اندهیرے میں تو کہیں نہ کھو جائے
میں نے شام ہوتے ہی دل جلا کے رکھا ہے
اک اڑان بھرنے پر کس طرح کٹے تھے پر
قید میں پرندوں کو یہ بتا کے رکھا ہے
لفظ لفظ باتوں نے کھا لیا کہانی کو
حرف حرف یادوں کا اب مٹا کے رکھا ہے
جس کی لو سے جل جائے ہاتھ کی ہتھیلی بھی
دیپ کیوں نیا اب وہ پھر سجا کے رکھا ہے
نازش غفار
No comments:
Post a Comment