تاریکیاں الجھتی ہیں وہم وگمان سے
سورج اتارنا ہے مجھے آسمان سے
قسمت نے پھر سے پاؤں میں رستے بچھا دئیے
میں چُور چُور تھا ابھی پچھلی تھکان سے
خوشبو کو اپنی سانس کی ڈوری میں باندھ کر
تھنڈی ہوائیں آتی ہیں تیرے مکان سے
گم سم کھڑا ہوں تیرے تصور کی دھوپ میں
جیسے گزر رہا ہو کوئی اپنی جان سے
ان کے مزاج سے نہیں ملتا مِرا مزاج
رہتا ہوں کٹ کے اس لیے میں خاندان سے
عرفان بال و پر میرے کھلنے کی دیر تھی
ڈرنے لگے ہیں آسماں میری اڑان سے
عرفان صادق
No comments:
Post a Comment