Monday, 2 May 2022

تاریکیاں الجھتی ہیں وہم وگمان سے

 تاریکیاں الجھتی ہیں وہم وگمان سے

سورج اتارنا ہے مجھے آسمان سے

قسمت نے پھر سے پاؤں میں رستے بچھا دئیے

میں چُور چُور تھا ابھی پچھلی تھکان سے

خوشبو کو اپنی سانس کی ڈوری میں باندھ کر

تھنڈی ہوائیں آتی ہیں تیرے مکان سے

گم سم کھڑا ہوں تیرے تصور کی دھوپ میں

جیسے گزر رہا ہو کوئی اپنی جان سے

ان کے مزاج سے نہیں ملتا مِرا مزاج

رہتا ہوں کٹ کے اس لیے میں خاندان سے

عرفان بال و پر میرے کھلنے کی دیر تھی

ڈرنے لگے ہیں آسماں میری اڑان سے


عرفان صادق

No comments:

Post a Comment