Tuesday, 3 May 2022

میں ایک بے لباس عورت ہوں

 میں ایک بے لباس عورت ہوں


میرے سر سبز خدا سے کہہ دو

اب مجھ سے یہ عزت کا چولہ نہیں پہنا جاتا

جب سے شام اپنی نگرانی میں

میری منگنی کے سرخ آنچل پہ

شب کا اندھیرا اتارنے لگی ہے

میرے لہو کے مجاور سب میری روح کے غاروں میں

پوشاک میں لپٹے ہوئے باؤلے کتے چھوڑ جاتے ہیں

جو میری پھٹی ہوئی چُنری میں پنجے گاڑے

ادھ موئے ہو کر بھونکتے جاتے ہیں

یہ بھونک میرے لیے ثابت قدمی کی سنگ بنیاد ہے

اب کہ مجھے بال بکھرانے سے

حسن کی شمعیں جلانے سے نہ روکے

ہوا کی سنگریزیوں میں 

میرے بے نشاں ہاتھوں کو رقص کرنے دے

میرے ماتھے پہ کسی کالک کا، کسی ناخدا کا ٹیکا

کانوں میں تنہائی کے بالے، من مہندی سے ہاتھ بھرائی

اس پہ بس یہ کہ

بندِ قبا سی بدنام چوڑیاں

اور نتھنوں میں داغدار آدھا چاند سجنے دے

درد کی منڈیر سے لپٹی ہوئی سوکھی بیلو! جاؤ

میرے گلِ نہال! خدا سے کہہ دو

گناہوں کے لہو میں لتھڑی ہوئی

میں ایک بے لباس عورت ہوں

اور میرے بدن پہ جابجا کرب کے چھینٹے ہیں


تحریم امان اللہ بخاری

No comments:

Post a Comment