میں ایک بے لباس عورت ہوں
میرے سر سبز خدا سے کہہ دو
اب مجھ سے یہ عزت کا چولہ نہیں پہنا جاتا
جب سے شام اپنی نگرانی میں
میری منگنی کے سرخ آنچل پہ
شب کا اندھیرا اتارنے لگی ہے
میرے لہو کے مجاور سب میری روح کے غاروں میں
پوشاک میں لپٹے ہوئے باؤلے کتے چھوڑ جاتے ہیں
جو میری پھٹی ہوئی چُنری میں پنجے گاڑے
ادھ موئے ہو کر بھونکتے جاتے ہیں
یہ بھونک میرے لیے ثابت قدمی کی سنگ بنیاد ہے
اب کہ مجھے بال بکھرانے سے
حسن کی شمعیں جلانے سے نہ روکے
ہوا کی سنگریزیوں میں
میرے بے نشاں ہاتھوں کو رقص کرنے دے
میرے ماتھے پہ کسی کالک کا، کسی ناخدا کا ٹیکا
کانوں میں تنہائی کے بالے، من مہندی سے ہاتھ بھرائی
اس پہ بس یہ کہ
بندِ قبا سی بدنام چوڑیاں
اور نتھنوں میں داغدار آدھا چاند سجنے دے
درد کی منڈیر سے لپٹی ہوئی سوکھی بیلو! جاؤ
میرے گلِ نہال! خدا سے کہہ دو
گناہوں کے لہو میں لتھڑی ہوئی
میں ایک بے لباس عورت ہوں
اور میرے بدن پہ جابجا کرب کے چھینٹے ہیں
تحریم امان اللہ بخاری
No comments:
Post a Comment