Monday, 2 May 2022

آنکھ کھولوں گا تو یادوں کے خزانے ہوں گے

 آنکھ کھولوں گا تو یادوں کے خزانے ہوں گے

نئے کپڑوں میں وہی لوگ پرانے ہوں گے

پیڑ نے بُور نہیں عشق اُٹھایا ہے میاں

اب درختوں سے بھی منسوب فسانے ہوں گے

میرا دشمن مِرے اندر ہی چھپا بیٹھا ہے

مجھ کو خود اپنی طرف تیر چلانے ہوں گے

یہ جو اپنے ہیں مِرے جان سے پیارے اپنے

موت آئی تو سبھی چھوڑ کے جانے ہوں گے

مجلسِ ہجر کی توقیر بڑھانے کے لیے

آنکھ سے اشک نہیں خواب بہانے ہوں گے

یوں بچھڑنے پہ تو دل اپنا بُرا تو نہ کر

فیصلے یوں ہی لکھے میرے خدا نے ہوں گے

بس کہانی میں یہاں تک ہی سفر تھا اپنا

اِس سے آگے تو ہمیں ہاتھ چھڑانے ہوں گے

اب یہاں شور ہے چیخیں ہیں عداوت ہے سعید

اب یہاں عشق کے اشعار سُنانے ہوں گے


مبشر سعید

No comments:

Post a Comment