Tuesday 3 May 2022

چشم فطرت سے بہے تھے جو بہتر آنسو

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چشمِ فطرت سے بہے تھے جو بہتر آنسو

آنکھ سے گرتے ہیں وہ بن کے سمندر آنسو

رونے والو! ہے اگر دل میں غمِ آلِ عبا

کربلا جائیں گے ان آنکھوں سے بہہ کر آنسو

تپشِ روزِ قیامت سے بچانے کے لیے

آئیں گے بہرِ سفارش لبِ کوثر آنسو

اہلِ غم ہیں، ہمیں معلوم ہے قیمت ان کی

ہم نہ دیں لعل و جواہر کے برابر آنسو

چشمِ زینبؑ سے بہے تھے جو بروزِ عاشور

بن کے عنوانِ وفا بٹ گئے گھر گھر آنسو

دیکھ کر نعشِ پسر، شاہؑ کہیں رو نہ پڑیں

ورنہ لے جائیں گے دنیا کو بہا کر آنسو

تر بہ تر غنچۂ و گل، شاخ و ثمر، سبزہ و برگ

ہر نئی صبح دکھاتے ہیں یہ منظر آنسو

کون یہ گِریہ کناں ہوتا ہے چھپ کر ہر شب

کس کی آنکھوں سے بہا کرتے ہیں شب بھر آنسو

غمِ مظلومئ شہؑ کرتی ہے ظاہر فطرت

اپنی آنکھوں سے ہر اک رات بہا کر آنسو

سن کے افسانۂ مظلومئ عابد، ساجد

کس کی آنکھیں ہیں جو لے جائیں بچا کر آنسو

ساجد امروہوی

مرزا ساجد حسین

No comments:

Post a Comment