سوکھے ہوئے دریا کی نشانی کے علاوہ
سب کچھ ہے میری آنکھ میں پانی کے علاوہ
آیا ہوں بھرے شہر سے اک دشت کی جانب
اک ہجر لیے نقل مکانی کے علاوہ
چوپال میں اے دیر سے بیٹھے ہوئے لوگو
کیا تم کو سناؤں میں کہانی کے علاوہ
کرنی ہے لہو سے مجھے آرائشِ مقتل
اور میرا لہو کچھ نہیں پانی کے علاوہ
دریا ہوں سو بہتا ہی چلا جاؤں گا اشرف
سیکھا نہیں کچھ میں نے روانی کے علاوہ
اشرف نقوی
No comments:
Post a Comment