Sunday, 1 May 2022

سوکھے ہوئے دریا کی نشانی کے علاوہ

سوکھے ہوئے دریا کی نشانی کے علاوہ 

سب کچھ ہے میری آنکھ میں پانی کے علاوہ 

آیا ہوں بھرے شہر سے اک دشت کی جانب 

اک ہجر لیے نقل مکانی کے علاوہ 

چوپال میں اے دیر سے بیٹھے ہوئے لوگو

کیا تم کو سناؤں میں کہانی کے علاوہ 

کرنی ہے لہو سے مجھے آرائشِ مقتل 

اور میرا لہو کچھ نہیں پانی کے علاوہ 

دریا ہوں سو بہتا ہی چلا جاؤں گا اشرف 

سیکھا نہیں کچھ میں نے روانی کے علاوہ 


اشرف نقوی 

No comments:

Post a Comment