ملتی ہے کہاں خواب کی تعبیر وغیرہ
کیا رکھ کے کروں اب تِری تصویر وغیرہ
میں دوڑ کے ملنے کو چلی آتی تجھے، پر
پاؤں میں پڑی ہے مِرے زنجیر وغیرہ
اس دور میں قانون پہ کرتی ہوں بھروسہ
اس پر بھی لگا دو کوئی تعزیر وغیرہ
یہ لوگ محبت کا اڑاتے ہیں تمسخر
رانجھا اسے کہتے ہیں مجھے ہِیر وغیرہ
ہوں تجھ کو مبارک یہ بلند بانگ حوالے
مجھ۔ کو نہیں آتی ہے یہ تشہیر وغیرہ
سینچا ہے اسے خونِ جگر دے کے قسم سے
تب جا کے ملی شعر میں تاثیر وغیرہ
سچ ہے تُو اسے جھوٹ سمجھتا ہے تو سمجھے
میں پھاڑ چکی ہوں تِری تصویر وغیرہ
کیسے تجھے آئے گا یقیں مجھ کو بتادے
اسٹامپ پہ لکھ دوں کوئی تحریر وغیرہ
کب تک تُو مجھے طعنۂ و تشنیع پہ رکھے گا
ہو جاتی ہے انسان سے تقصیر وغیرہ
مایوس نہیں صائمہ رحمت سے خدا کی
ہو سکتی ہے سنوائی میں تاخیر وغیرہ
صائمہ کامران
No comments:
Post a Comment