جب تیری یاد کے بازار سے لگ جاتے ہیں
ڈر کہ ہم بھیڑ میں دیوار سے لگ جاتے ہیں
ہجر کے پیڑ سے جب یاد کا پھل گرتا ہے
دل میں پھر درد کے انبار سے لگ جاتے ہیں
اس سفر پہ جو چلے ہیں تو یہی جانا ہے
عشق میں ہجر کے آزار سے لگ جاتے ہیں
لاکھ چاہا مگر کم نہ ہوئی وحشتِ دل
اس لیے سینۂ غمخوار سے لگ جاتے ہیں
کیوں نہ ہم اپنی عداوت کو پرکھ لیں اب کہ
یعنی دشمن کے گلے پیار سے لگ جاتے ہیں
کاش مرہم ہمیں مل جائے کہیں ان کا
زخم جو اپنوں کے گفتار سے لگ جاتے ہیں
اس کی تصویر کو سینے سے لگا کر ناصر
ہم تخیل میں گلے یار سے لگ جاتے ہیں
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment