Tuesday, 3 May 2022

جب تیری یاد کے بازار سے لگ جاتے ہیں

 جب تیری یاد کے بازار سے لگ جاتے ہیں

ڈر کہ ہم بھیڑ میں دیوار سے لگ جاتے ہیں

ہجر کے پیڑ سے جب یاد کا پھل گرتا ہے

دل میں پھر درد کے انبار سے لگ جاتے ہیں

اس سفر پہ جو چلے ہیں تو یہی جانا ہے

عشق میں ہجر کے آزار سے لگ جاتے ہیں

لاکھ چاہا مگر کم نہ ہوئی وحشتِ دل

اس لیے سینۂ غمخوار سے لگ جاتے ہیں

کیوں نہ ہم اپنی عداوت کو پرکھ لیں اب کہ

یعنی دشمن کے گلے پیار سے لگ جاتے ہیں

کاش مرہم ہمیں مل جائے کہیں ان کا

زخم جو اپنوں کے گفتار سے لگ جاتے ہیں

اس کی تصویر کو سینے سے لگا کر ناصر

ہم تخیل میں گلے یار سے لگ جاتے ہیں


ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment