وہ مجھے چھوڑ کے تنہا تو نہیں جا سکتا
پھر بھی اس دل سے یہ دھڑکا تو نہیں جا سکتا
لفظ چنتے ہوئے اعصاب بھی تھک جاتے ہیں
جھوٹ آسانی سے بولا تو نہیں جا سکتا
پاؤں پانی میں بھگوتی ہوئی لڑکی سے کہو
اب کہیں اور یہ دریا تو نہیں جا سکتا
ساتھ چلنا بھی مِرے سہل نہیں ہے، لیکن
یوں مجھے چھوڑ کے جایا تو نہیں جا سکتا
نیند کی ذرہ نوازی ہے کہ لے جاتی ہے
خواب تک کوئی اکیلا تو نہیں جا سکتا
کوئی خوشبو ہے جو ہمراہ چلی آتی ہے
آدمی باغ سے تنہا تو نہیں جا سکتا
چھوڑ کر دنیا کسی وقت بھی جا سکتا ہوں
مجھ کو اس حال میں چھوڑا تو نہیں جا سکتا
ممتاز گورمانی
No comments:
Post a Comment