Monday 2 May 2022

رفیق سمجھا گیا دشمنی میں مارا گیا

 رفیق سمجھا گیا، دشمنی میں مارا گیا

مجھے پتہ تو چلے کس خوشی میں مارا گیا

میں کہہ رہا ہوں بھرے شہر سے گواہی لو

میں کہہ رہا ہوں مجھے روشنی میں مارا گیا

ٹھکانا جس کا جہاں تھا، اسے وہیں رکھا

چنانچہ سر تیری دیوار ہی میں مارا گیا

نشان آج بھی میرے جگر پہ ہے اس کا

وہ ایک پھول جو تجھ کو ہنسی میں مارا گیا

سنا ہے اور بھی کافی لہو ہوئے دانش

اکیلا میں ہی نہیں اس گلی میں مارا گیا


دانش نقوی

No comments:

Post a Comment