کئے ہو ہم پہ یقیں یار تم بھی پاگل ہو
ہماری زہرہ جبیں یار تم بھی پاگل ہو
مِرے حصول کی اک آس لے کے بیٹھی ہو
مِرا بھروسہ نہیں یار تم بھی پاگل ہو
میں اپنے آپ کو مجنوں صفت سمجھتا تھا
مگر کہیں نہ کہیں یار تم بھی پاگل ہو
یہ گھر پہ آنے کی ضد چھوڑ دو خدا کے لیے
اے میرے قلب نشیں یار تم بھی پاگل ہو
میں تم سے سچ ہے کہ پاکیزہ عشق کرتا ہوں
اب آؤ میرے قریں یار تم بھی پاگل ہو
جو بات تم سے کہی رات کے اندھیرے میں
کسی سے کہتے نہیں یار تم بھی پاگل ہو
ظہیر الہ آبادی
No comments:
Post a Comment