اس کے دل میں اگر غبار نہیں
مجھ کو ملنے میں کوئی عار نہیں
آپ شاید سمجھ نہیں پائے
رَو ہے اشکوں کی، آبشار نہیں
اب کے دھڑکن میں حبس اُترا ہے
اب تو پل کا بھی اعتبار نہیں
ڈر ہے پتھر کا ہو نہ جاؤں میں
لوگ سُنتے مِری پکار نہیں
ہم مروت میں جان دیتے ہیں
گو مروت تِرا شعار نہیں
سر تمہارے ہو جیت کا سہرا
ہار جانے میں میری ہار نہیں
تیرے چہرے پہ کیوں پسینہ ہے
تیرا دامن تو داغدار نہیں
بات پوری کرے کرے نہ کرے
تیرے دانش کا اعتبار نہیں
جاوید دانش
No comments:
Post a Comment