دن کی آہیں نہ گئیں رات کے نالے نہ گئے
میرے دل سوز مِرے چاہنے والے نہ گئے
اپنے ماتھے کی شکن تم سے مٹائی نہ گئی
اپنی تقدیر کے بل ہم سے نکالے نہ گئے
تذکرہ سوزِ محبت کا کیا تھا اک بار
تا دمِ مرگ زباں سے مِری چھالے نہ گئے
شمع رُو ہو کے فقط تم نے جلانا سیکھا
میرے غم میں کبھی دو اشک نکالے نہ گئے
آج تک ساتھ ہیں سرکار جنوں کے تحفے
سر کا چکر نہ گیا پاؤں کے چھالے نہ گئے
وہ بھلا پیچ نکالیں گے مِری قسمت کے
اپنے بالوں کے تو بل ان سے نکالے نہ گئے
کوئی شب ایسی نہ گزری کہ بنا کر گیسو
سیکڑوں بل مِری تقدیر میں ڈالے نہ گئے
ہمسفر ایسے وفادار کہاں ملتے ہیں
تیرے وحشی کے قدم چھوڑ کے چھالے نہ گئے
اپنا دیوان مرقع ہے حسینوں کا جلیل
نکتہ چیں تھک گئے کچھ عیب نکالے نہ گئے
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment