Sunday, 1 May 2022

کس یاس سے مرے ہیں مریض انتظار کے

 کس یاس سے مِرے ہیں مریض انتظار کے

قاتل کو یاد کر کے، قضا کو پکار کے

مقتل میں حال پوچھو نہ مجھ بے قرار کے

تم اپنے گھر کو جاؤ چُھری پھیر پھار کے

رکتی نہیں ہے گردشِ ایام کی ہنسی

لے آنا طاق سے مِرا ساغر اتار کے

جی ہاں شراب خور ہیں، ہم تو جنابِ شیخ

بندے بس ایک آپ ہیں، پروردگار کے

لکھا ہوا جہاں تھا مقدر میں ڈوبنا

کشتی کو موج لائی وہیں گھیر گھار کے

صیاد تیرے حکمِ رہائی کا شکریہ

ہم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے

ہم ان سے بات کر نہ سکے بزمِ غیر میں

شوقِ کلام رہ گیا دل مار مار کے

کتنی طویل ہوتی ہے اِنساں کی زندگی

سمجھا ہوں آج میں شبِ فرقت گزار کے


استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment