Sunday, 1 May 2022

یہ زندگی تو ایک بہانہ ہے اور بس

 یہ زندگی تو ایک بہانہ ہے اور بس

کچھ دن کا تجھ سے ملنا ملانا ہے اور بس

ماں تھی شجر تھا اور پرندے تھے بے شمار

اب اس مکاں میں دفن خزانہ ہے اور بس

جب تک تمہاری آنکھ میں موجود ہوں تو ہوں

تم نے مجھے یہاں سے گرانا ہے اور بس

کب سے ہیں میری تاک میں منہ زور آندھیاں

میں نے یہاں چراغ جلانا ہے اور بس

میری بھی زندگی ہے کسی پھول کی طرح

میں نے ہوا کو بھید بتانا ہے اور بس

سوچوں اگر تو تُو ہے محبت کا اک جہاں

دیکھوں اگر تو تُو بھی زمانہ ہے اور بس

پہلے پہل لگا تھا محبت ہے زندگی

اب سوچئے تو ایک فسانہ ہے اور بس

اس نے تو اپنا دستِ دعا کھینچ کر قمر

یہ آسمان مجھ پہ گرانا ہے اور بس


ریحانہ قمر

No comments:

Post a Comment