یہ زندگی تو ایک بہانہ ہے اور بس
کچھ دن کا تجھ سے ملنا ملانا ہے اور بس
ماں تھی شجر تھا اور پرندے تھے بے شمار
اب اس مکاں میں دفن خزانہ ہے اور بس
جب تک تمہاری آنکھ میں موجود ہوں تو ہوں
تم نے مجھے یہاں سے گرانا ہے اور بس
کب سے ہیں میری تاک میں منہ زور آندھیاں
میں نے یہاں چراغ جلانا ہے اور بس
میری بھی زندگی ہے کسی پھول کی طرح
میں نے ہوا کو بھید بتانا ہے اور بس
سوچوں اگر تو تُو ہے محبت کا اک جہاں
دیکھوں اگر تو تُو بھی زمانہ ہے اور بس
پہلے پہل لگا تھا محبت ہے زندگی
اب سوچئے تو ایک فسانہ ہے اور بس
اس نے تو اپنا دستِ دعا کھینچ کر قمر
یہ آسمان مجھ پہ گرانا ہے اور بس
ریحانہ قمر
No comments:
Post a Comment