گنگناتی سی کوئی رات بھی آ جاتی ہے
آپ آتے ہیں تو برسات بھی آ جاتی ہے
ہم کو ہر چند گوارا نہیں آنسو، لیکن
اپنی جھولی میں یہ خیرات بھی آ جاتی ہے
آرزوؤں کے جنازے ہی نہیں پلکوں پر
بجلیوں کی کبھی بارات بھی آ جاتی ہے
گردش جام سے ہٹ کر بھی تری آنکھوں سے
وجد میں گردش حالات بھی آ جاتی ہے
وہ فسانے جو مِرے نام سے منسوب ہوئے
ان فسانوں میں تِری بات بھی آ جاتی ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment