بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہو گی
کم سے کم تجھ میں تِری ذات تو ہوتی ہو گی
یہ الگ بات کوئی چاند ابھرتا نہ ہو اب
دل کی بستی میں مگر رات تو ہوتی ہو گی
دھوپ میں کون کسے یاد کیا کرتا ہے
پر تِرے شہر میں برسات تو ہوتی ہو گی
ہم تو صحرا میں ہیں، تم لوگ سناؤ اپنی
شہر سے روز ملاقات تو ہوتی ہو گی
کچھ بھی ہو جائے مگر تیرے طرفدار ہیں سب
زندگی! تجھ میں کوئی بات تو ہوتی ہو گی
امیر امام
No comments:
Post a Comment