Tuesday, 3 May 2022

لہو میں ارض و سما بھر کے بھی نہیں بھرتا

 لہو میں ارض و سما بھر کے بھی نہیں بھرتا

یہ دل یہ کاسۂ آوارگی نہیں بھرتا

جو زخم ہیں نظر انداز اندمال میں ہیں

بہت خیال ہے جس کا وہی نہیں بھرتا

مِرے نقوش مِرا دائمی تعارف ہیں

میں کوئی رنگ کہیں عارضی نہیں بھرتا

زمیں کی اپنی بقا ہے ہرے درختوں میں

کسی کا دامن خالی کوئی نہیں بھرتا

سفر کرو کہ تجسس کی بھوک مٹ جائے

سکون سے شکم آگہی نہیں بھرتا

یہ آگ روز نیا پن پہن کے آتی ہے

کچھ اس لیے بھی محبت سے جی نہیں بھرتا

ازل سے ہوں غم آئندگی اٹھائے ہوئے

یہ زخم وہ ہے جسے وقت بھی نہیں بھرتا

سمے کی آخری آرام گہ خموشی ہے

یہ شہر گر دم صحرا یونہی نہیں بھرتا

مِرا چراغ بدن خالی خاک تھا شاہد

اگر وہ مجھ میں زر شعلگی نہیں بھرتا


شاہد ذکی

No comments:

Post a Comment