آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے
بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے
تم کو تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
دکھ بڑا ہو تو خلاصہ بھی بہت ہوتا ہے
ہم بھی کیا لوگ ہیں سب جھولیاں بھر لاتے ہیں
بے یقینی کا تو ماسہ بھی بہت ہوتا ہے
شکریہ کہہ کے تسلی ہمیں مل جاتی ہے
ورنہ احسان ذرا سا بھی ، بہت ہوتا ہے
یہ جو ہم لوگ دکھائی نہیں دیتے ہیں تمہیں
کم نمائی کا یہ خاصہ بھی بہت ہوتا ہے
ہم فقیروں کی مناجات کا افسوس نہ کر
ہاتھ خالی ہوں تو کاسہ بھی بہت ہوتا ہے
آپ ہمدردی کے احسان اٹھا لائے ہیں
رونے والوں کو دلاسہ بھی بہت ہوتا ہے
سوکھ جاتے ہیں تعلق کے یہ تالاب ضمیر
جن دنوں آدمی پیاسا بھی بہت ہوتا ہے
ضمیر قیس
ضمیر حسن
No comments:
Post a Comment