Tuesday, 3 May 2022

جو دل میں کھٹکتی ہے کبھی کہہ بھی سکو گے

 جو دل میں کھٹکتی ہے کبھی کہہ بھی سکو گے

یا عمر بھر ایسے ہی پریشان پھرو گے

پتھر کی ہے دیوار تو سر پھوڑنا سیکھو

یہ حال رہے گا تو جیو گے نہ مرو گے

طوفان اٹھاؤ گے کبھی اپنے جہاں میں

یا آنکھ کے پانی ہی کو سیلاب کہو گے

سوئے ہو اندھیرے میں چراغوں کو بجھا کر

آئے گا نظر خاک اگر جاگ اٹھو گے

اپنی ہی حقیقت کو نہ پہچاننے والو

تم پردۂ افلاک کو کیا چاک کرو گے

اے برق کی مانند گزرتے ہوئے لمحو

کیا آنکھ جھپکنے کی بھی مہلت نہیں دو گے

روشن بھی کرو گے کبھی تاریکئ شب کو

یا شمع کی مانند پگھلتے ہی رہو گے

ارزاں ہے بہت خون فروزاں ہے بہت شام

کیا اپنی ہی محفل میں چراغاں نہ کرو گے

مانا کہ کٹھن راہ ہے دشوار سفر ہے

کیا ایک قدم بھی نہ مِرے ساتھ چلو گے

گزرے ہوئے لمحے کی وہ بے نام کسک ہوں

تم جس کی تمنا میں پریشان پھرو گے

چاہو گے نشاں بھی نہ رہے میرا جہاں میں

گر ذکر کرو گے تو مِرا نام نہ لو گے

یہ گرد سفر حال وہ کر دے گی کہ شہزاد

تم اپنی بھی صورت کو نہ پہچان سکو گے


شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment