جو دل میں کھٹکتی ہے کبھی کہہ بھی سکو گے
یا عمر بھر ایسے ہی پریشان پھرو گے
پتھر کی ہے دیوار تو سر پھوڑنا سیکھو
یہ حال رہے گا تو جیو گے نہ مرو گے
طوفان اٹھاؤ گے کبھی اپنے جہاں میں
یا آنکھ کے پانی ہی کو سیلاب کہو گے
سوئے ہو اندھیرے میں چراغوں کو بجھا کر
آئے گا نظر خاک اگر جاگ اٹھو گے
اپنی ہی حقیقت کو نہ پہچاننے والو
تم پردۂ افلاک کو کیا چاک کرو گے
اے برق کی مانند گزرتے ہوئے لمحو
کیا آنکھ جھپکنے کی بھی مہلت نہیں دو گے
روشن بھی کرو گے کبھی تاریکئ شب کو
یا شمع کی مانند پگھلتے ہی رہو گے
ارزاں ہے بہت خون فروزاں ہے بہت شام
کیا اپنی ہی محفل میں چراغاں نہ کرو گے
مانا کہ کٹھن راہ ہے دشوار سفر ہے
کیا ایک قدم بھی نہ مِرے ساتھ چلو گے
گزرے ہوئے لمحے کی وہ بے نام کسک ہوں
تم جس کی تمنا میں پریشان پھرو گے
چاہو گے نشاں بھی نہ رہے میرا جہاں میں
گر ذکر کرو گے تو مِرا نام نہ لو گے
یہ گرد سفر حال وہ کر دے گی کہ شہزاد
تم اپنی بھی صورت کو نہ پہچان سکو گے
شہزاد احمد
No comments:
Post a Comment