Tuesday, 3 May 2022

شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے

شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے

جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے

اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے

اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے

شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن

اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے

سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے

اپنے سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ہے

آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن

آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے

پرتو مہر سے ہے چاند کی جھلمل انور

اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے


انور مسعود

No comments:

Post a Comment