Sunday 1 May 2022

زندگی قطرہ قطرہ پگھلتی رہی

 زندگی قطرہ قطرہ پگھلتی رہی

رات سے بات تیری نکلتی رہی

چاندنی کے روپہلے دیے

تیری آواز کی جھیل میں

جل کے بجھتے رہے

بجھ کے جلتے رہے

وقت کے نیل میں

ساتھ بہتے کنارے

رواجوں کی بھاری صلیبیں اٹھائے ہوئے

ساتھ چلتے رہے

ہاتھ ملتے رہے

سیلی سیلی سی

تھم تھم کے جلتی دعائوں کا

کڑوا دھواں

اور آنکھوں کے افسردہ صحرائوں میں

ایک ایک کر کے گم ہوتے

خوابوں کی ویرانیاں

سیل غم، موج درموج

سر سے گزرتی رہی

دور بیٹھی ہوئی خود سے میں

خالی خالی سی آنکھوں سے

چپ چاپ تکتی رہی

رات جلتی رہی

زندگی قطرہ قطرہ پگھلتی رہی

شمع کے ساتھ یونہی

رات پگھلتی جائے

مرے احساس کے کشکول میں

گرتا جائے

آج خیرات پہ مائل ہے

محبت کی نظر

آج یہ کاسہء امید

چھلک جانے دو

کل برے وقت میں کام آئے گی

پھر اٹھالیں گے، دھریں گے

یہی گزرا ہوا وقت

گزراوقات کی صورت نکل تو آتی ہے 

صورت نکل تو آتی ہے

شام آئے گی

پھر اٹھالیں گے، دھریں گے

یہی گزرا ہوا وقت

گزر اوقات کی صورت نکل تو آتی ہے

شمع کے ساتھ یونہی

رات پگھلتی جائے

مرے احاس کے کشکول میں

گرتا جائے

آج خیرات پہ مائل ہے

محبت کی نظر

آج یہ کاسۂ امید

چھلک جانے دو

کل پہ خیرات

برے وقت میں کام آئے گی

پھر اٹھالیں گے، دھریں گے

یہی گزرا ہوا وقت

گزراوقات کی صورت نکل تو آتی ہے


نسیم سید

No comments:

Post a Comment