زندگی قطرہ قطرہ پگھلتی رہی
رات سے بات تیری نکلتی رہی
چاندنی کے روپہلے دیے
تیری آواز کی جھیل میں
جل کے بجھتے رہے
بجھ کے جلتے رہے
وقت کے نیل میں
ساتھ بہتے کنارے
رواجوں کی بھاری صلیبیں اٹھائے ہوئے
ساتھ چلتے رہے
ہاتھ ملتے رہے
سیلی سیلی سی
تھم تھم کے جلتی دعائوں کا
کڑوا دھواں
اور آنکھوں کے افسردہ صحرائوں میں
ایک ایک کر کے گم ہوتے
خوابوں کی ویرانیاں
سیل غم، موج درموج
سر سے گزرتی رہی
دور بیٹھی ہوئی خود سے میں
خالی خالی سی آنکھوں سے
چپ چاپ تکتی رہی
رات جلتی رہی
زندگی قطرہ قطرہ پگھلتی رہی
شمع کے ساتھ یونہی
رات پگھلتی جائے
مرے احساس کے کشکول میں
گرتا جائے
آج خیرات پہ مائل ہے
محبت کی نظر
آج یہ کاسہء امید
چھلک جانے دو
کل برے وقت میں کام آئے گی
پھر اٹھالیں گے، دھریں گے
یہی گزرا ہوا وقت
گزراوقات کی صورت نکل تو آتی ہے
صورت نکل تو آتی ہے
شام آئے گی
پھر اٹھالیں گے، دھریں گے
یہی گزرا ہوا وقت
گزر اوقات کی صورت نکل تو آتی ہے
شمع کے ساتھ یونہی
رات پگھلتی جائے
مرے احاس کے کشکول میں
گرتا جائے
آج خیرات پہ مائل ہے
محبت کی نظر
آج یہ کاسۂ امید
چھلک جانے دو
کل پہ خیرات
برے وقت میں کام آئے گی
پھر اٹھالیں گے، دھریں گے
یہی گزرا ہوا وقت
گزراوقات کی صورت نکل تو آتی ہے
نسیم سید
No comments:
Post a Comment