Sunday, 1 May 2022

دیوانوں پر ہاتھ نہ ڈالو اس ضد میں پچھتاؤ گے

 دیوانوں پر ہاتھ نہ ڈالو اس ضد میں پچھتاؤ گے

سارے شہر میں کس کس کو تم زنجیریں پہناؤ گے

کیا صحرا کی تپتی مٹی اپنا سر نہ اٹھائے گی

تم تو یہ دیوار بڑھا کر صحرا تک لے جاؤ گے

ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ تم مختار سریر کوہ بنو

لیکن تم سے ملنا کیا ہے پتھر ہی برساؤ گے

بزم آرائی اچھی لیکن ایسی بزم آرائی کیا

دامن دامن آگ لگا دی، اور چراغ جلاؤ گے

پھول ہیں کوئی خار نہیں ہم آؤ ہم میں آ بیٹھو

خوشبو میں آباد رہو گے خوشبو ہی کہلاؤ گے

آنکھیں نیچی کر لو رات کے رستے نا ہموار بھی ہیں

چاند کو تکتے چلنے والو! دیکھو، ٹھوکر کھاؤ گے

حرف تو کار کلک و زباں ہے نقل حرف تو آساں ہے

زخم کوئی تصویر نہیں ہے جس کے نقش بناؤ گے

در کو چھوڑا دیر کو چھوڑا دار میں اب ہے دل یارو

کیا عنوان تراشو گے،۔ اب کیا الزام لگاؤ گے


محشر بدایونی

No comments:

Post a Comment