کبھی آنکھوں کے کوزوں میں سمندر دیکھنے آؤ
جو برپا ہے مِرے دل میں وہ محشر دیکھنے آؤ
تمہیں بارش کے موسم سے بلا کا عشق ہوتا تھا
برستی آنکھ میں ساون کا منظر دیکھنے آؤ
وہ جس پاگل کا اک پل بھی تمہارے بن نہ کٹتا تھا
گزارا کس طرح اس نے دسمبر دیکھنے آؤ
دیا طوفاں کی زد میں تم تو رکھ کر چل پڑے ظالم
لڑا کس کس سے وہ تنہا ستمگر دیکھنے آؤ
کبھی رشکِ فلک بن کر ستاروں میں جو رہتا تھا
بکھرتا جا رہا ہے وہ زمیں پر دیکھنے آؤ
کسی کاندھے پہ تم تو درد رکھ کر بھول بیٹھے ہو
کوئی کاندھا مجھے بھی ہے میسر، دیکھنے آؤ
مِرے پیروں کو چھو لیتے تو پھولوں سے جھگڑتے تھے
بچھے ہیں اب جو راہوں میں وہ پتھر دیکھنے آؤ
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment