Monday, 2 May 2022

رہتا تھا جو پرے مِرے وہم و گمان سے

 رہتا تھا جو پرے مِرے وہم و گمان سے

بیٹھا ہے دل کے تخت پہ اب کتنی شان سے

اس نے جو التفات کی تھوڑی نگاہ کی

رہنے لگے ہیں ہم بھی ذرا خوش گمان سے

منزل کی جستجو میں تھی تنہا مسافرت

شل ہوگیا بدن مِرا ذہنی تکان سے

اک شب مجھے نصیب ہوئیں اس کی قربتیں

ہٹتے نہیں ہیں لمحے وہ اب میرے دھیان سے

مدت سے آرزو تھی کہ پرواز ہو بلند 

ڈر لگ رہا ہے کیوں مجھے اونچی اڑان سے

رخصت کے وقت جیسے میں پتھر کی ہو گئی

"نکلا نہ ایک حرف بھی میری زبان سے"

چشمِ کرم سے نکھرے گی اک دن مِری حیات

دل کو ہے آس سعدیہ! اس مہربان سے


سعدیہ صدف

No comments:

Post a Comment