آئینہ صاف رہے،ربط میں تشکیک نہ ہو
اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو
ہے اگر عشق تو پھر عشق لگے، رحم نہیں
اتنی مقدار تو دے،، وصل رہے، بھیک نہ ہو
مجھے تم ایسے اجاڑو، کہ کئی نسلوں تک
آنے والوں کو مِرے عشق کی تحریک نہ ہو
تجھ کو اک شخص ملے، جو کبھی تجھ کو نہ ملے
تجھ کو اک زخم لگے اور کبھی ٹھیک نہ ہو
پھونک اس دل پہ کوئی ذکر کہ تا عمر تمام
روشنی دیتا رہے بجھ کے بھی تاریک نہ ہو
چھوڑ کے جاؤ کچھ ایسے کہ بھرم رہ جائے
دل سے کچھ ایسے نکالو مِری تضحیک نہ ہو
آزاد حسین آزاد
No comments:
Post a Comment