احوال تِرا شامِ بدن میں بھی وہی ہے
باطن کی چمک سانولے پن میں بھی وہی ہے
وحشت کے لیے شہر مناسب نہیں ورنہ
آہو تو مِری جان ختن میں بھی وہی ہے
آباد نہیں اس سے فقط وصل کی بستی
وہ پھول ہے اور ہجر کے بن میں بھی وہی ہے
اک موج سے شاداب ہیں یہ دونوں کنارے
جو ہے مِرے من میں تِرے تن میں بھی وہی ہے
یہ راز کُھلا روزنِ زنداں کی بدولت
سورج میں ہے جو بات کرن میں بھی وہی ہے
مٹی ہی میں ملنا ہے تو اس شہر سے کیوں جائیں
مٹی تو میاں ارضِ وطن میں بھی وہی ہے
تنہا ہوں سو اے میرے حریفو! مِری پہچان
رن میں بھی وہی بزمِ سخن میں بھی وہی ہے
عرفان صدیقی
No comments:
Post a Comment