Wednesday, 4 May 2022

کوئی سایہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

 کوئی سایہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

مر جاؤں گا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

سانولی رُت میں خواب جلے تو آنکھ کھلی

میں نے دیکھا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

اب کے موسم یہی رہا تو مر جائے گا

اک اک لمحہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

کوئی ٹھکانہ بخش اسے جو گھوم رہا ہے

مارا مارا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

ایک تو دل کے رستے بھی دشوار بہت ہیں

پھر میں پیاسا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

کوئی سایہ آگ میں جلنے والوں پر بھی

کوئی پروا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

رات کو اک پاگل نے شہر کی دیواروں پر

خون سے لکھا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

اچھے سائیں مان لیا دنیا ہے روشن

لیکن یہ کیا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

کون تھا جس سے دل کی حالت کہتا میں

کس سے کہتا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے​


ن م دانش

نور محمد دانش

No comments:

Post a Comment