ہوا چلے گی مگر ستارا نہیں چلے گا
سمندروں میں ترا اشارا نہیں چلے گا
یہی رہیں گے یہ در یہ گلیاں یہی رہیں گی
تمہی چلو گے کوئی نظارا نہیں چلے گا
شب سفر ہے ہتھیلیوں پر بھنور اگیں گے
تمہارے ہمراہ اب کنارا نہیں چلے گا
سنو کہ اب ہم گلاب دیں گے گلاب لیں گے
محبتوں میں کوئی خسارا نہیں چلے گا
بہار مقروض ہے گھروں اور مقبروں کی
گلوں پہ رستوں کا ہی اجارا نہیں چلے گا
جاوید انور
No comments:
Post a Comment