عمر رفتہ میں ترے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں
دن بتانے تھے مگر خود کو بتا آیا ہوں
دھول بھی ایسے قرینے سے اڑائی ہے کہ میں
ایک مرتے ہوئے رستے کو بچا آیا ہوں
کل کو دے آؤں گا جا کر اسے بینائی بھی
آنکھ دیوار پہ فی الحال بنا آیا ہوں
وادئ صوت نہیں مجھ کو بھلانے والی
نقش یوں کر کے وہاں اپنی صدا آیا ہوں
صرف پاؤں ہی نہیں قید سے باہر آئے
اپنی زنجیر کو بھی کر کے رہا آیا ہوں
اپنے آنسو بھی کیے نذر کسی پانی کے
پیاس دریا کی بہر طور بجھا آیا ہوں
زندگی تُو بھی بہت یاد کرے گی مجھ کو
تیرے حصے کے بھی دکھ درد اٹھا آیا ہوں
اب پریشاں ہوں کہ تعبیر کا جانے کیا ہو
بند کانوں کو نیا خواب سنا آیا ہوں
جانے کس گھاٹ لگے عمر کی کشتی احمد
خود کو سوکھے ہوئے دریا میں بہا آیا ہوں
آفتاب احمد
No comments:
Post a Comment