خاموش ہوں
کسی شیلف پہ دھری
بے نام لکھاری کی کتاب کی طرح
خزاں کی رُت میں کسی بوڑھے بے ثمر پیڑ کی طرح
بے سُود ہوں
کسی آرٹ گیلری کے اک کونے میں پڑی
ٹوٹی پُتلی کی طرح
چوبیس گھنٹے بے بسی سے
چھت کو گھورتے مفلوج وجود کی طرح
دُکھ ہوں
کسی جواں سال کی قبر پہ بین کرتی بیوہ کی طرح
بانجھ عورت کی آنکھوں میں
تمنا کی چنگاری کی طرح
مات ہوں
کسی ضعیف کے بے جنبش ہاتھوں سے نکلتی
زندگی کی آخری رمق کی طرح
پہاڑ کی چوٹی سے اڑان بھرنے کی سعی میں
گرتے گھائل عقاب کی طرح
ماہم ارشد
No comments:
Post a Comment