Monday 2 May 2022

ہزار موجۂ سیلاب پر خطر ہی سہی

 ہزار موجۂ سیلاب پُر خطر ہی سہی

جو ڈوبنا ہے تو پھر تیرے نام پر ہی سہی

کبھی یہاں بھی چمن تھا یہاں بھی رونق تھی

گزر رہے ہو تو اس سمت اک نظر ہی سہی

نہ منزلوں کو تمنا نہ راستوں کی خبر

نکل پڑے ہیں تو پھر کوئی رہگزر ہی سہی

کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں

جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی

کبھی تو لے ہی اڑوں گا قفس کو ساتھ اپنے

ہنوز مجھ کو تمنائے بال و پر ہی سہی

تمہاری آنکھ میں کیفیتِ خمار تو ہے

شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی

زمانہ تِیرہ و تاریک ہے مگر میں کون

مِری چمک سے اُجالا نگر نگر ہی سہی

بہت اداس ہے ہر ایک رہگزر شہزاد

کدھر کو جائیں ہم آمادۂ سفر ہی سہی


شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment