کبھی تو واپس پلٹ کے دیکھو
ہماری پلکوں پہ ٹھہرے آنسو سے حال پوچھو
شبِ الم کی مسافتوں کا
دھواں دھواں دل کی حسرتوں کا
کبھی تو پوچھو کہ کیسے گزرے
وہ سارے پل جب ہماری آنکھیں
خود اپنی نیندوں سے منحرف تھیں
تمہارے خوابوں کی منتظر تھیں
یہ بات سچ ہے کہ دور رہ کر بھی
ساری سوچیں تمہاری ہستی سے متصل ہیں
تمہارے آنے کی منتظر ہیں
کسی کی افتادِ زندگی کی
تمہیں خبر بھی نہیں ہے لیکن
میں کب سے دستِ خزاں کی زد میں
دہکتے صحرا سی اوڑھنی میں
تمھارے وعدے سمیٹے اب تک
تمہاری باتوں کو سوچتی ہیں
ہزار لوگوں کی بھیڑ میں بھی
تمہارا چہرہ ہی کھوجتی ہوں
یقیں نہ آئے تو آ کے دیکھو
جہاں پہ بچھڑے تھے راستوں میں
وہیں پہ میں آج بھی کھڑی ہوں
جلا کے پلکوں پہ دیپ اب بھی
وفا کی حرمت بچا رہی ہوں
جو وعدے تم نے بھلا دئیے ہیں
میں تنہا ان کو نبھا رہی ہوں
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment