Tuesday, 3 May 2022

اتنے معمول سے اب خوف خطر آتا ہے

 اتنے معمول سے اب خوف، خطر آتا ہے

جس طرح صبح کا بُھولا ہوا گھر آتا ہے

بعد آنکھوں کے مِرا دل بھی نکالا اس نے

اس کو شک تھا کہ مجھے اب بھی نظر آتا ہے

آنکھ بھیگی ہو ذرا سی کبھی میری تو کہو

دل کی چھوڑو یہ تو بس ایسے ہی بھر آتا ہے

یہ جو آتا ہے پسینہ مِری پیشانی پر

میرے دل تک تِری آہوں کا اثر آتا ہے

جب سے نکلا ہے مِرے دل سے تِری دھوپ کا خوف

میری ہر راہ میں خود چل کے شجر آتا ہے

ایسے آتی ہے مِری سمت محبت تیری

جس طرح سایہ کوئی خاک بہ سر آتا ہے

جب تِری یاد مِری ذات کا در کھولتی ہے

چاند مرجھا کے خیالوں میں اتر آتا ہے

کاش اس کیف کی تعبیر کبھی ممکن ہو

لوریاں دینے مجھے موت کا ڈر آتا ہے

وہ سمجھتا تھا، وہ سچ مچ میں سمجھتا تھا یہی

مجھ کو تنہائی سے لڑنے کا ہنر آتا ہے

وائے بربادی مقدر ہوا ماتم میرا

وہ کہیں بھی نہیں اور رختِ سفر آتا ہے

اس لیے ہی تو تجھے ساتھ نہیں لایا میں

ہر قدم پر میرے رستے میں بھنور آتا ہے


فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment