اس کو پہلی بار خط لکھا تو دل دھڑکا بہت
کیا جواب آئے گا کیسے آئے گا ڈر تھا بہت
جان دے دیں گے اگر دنیا نے روکا راستہ
اور کوئی حل نہ نکلا ہم نے تو سوچا بہت
اب سمجھ لیتے ہیں میٹھے لفظ کی کڑواہٹیں
ہو گیا ہے زندگی کا تجربہ تھوڑا بہت
سوچ لو پہلے ہمارے ہاتھ میں پھر ہاتھ دو
عشق والوں کے لیے ہیں آگ کے دریا بہت
وہ تھی آنگن میں پڑوسی کے میں گھر کی چھت پہ تھا
دوریوں نے آج بھی دونوں کو تڑپایا بہت
اس سے پہلے تو کبھی احساس ہوتا ہی نہ تھا
تجھ سے مل کر سوچتے ہیں رو لیے تنہا بہت
آنکھ ہوتی تو نظر آ جاتے چھالے پاؤں کے
سچ کو کیا دیکھے گا اپنا شہر ہے اندھا بہت
منظر بھوپالی
No comments:
Post a Comment